معزز سامعین کرام
حضرات
آپ کو معلوم ہے کہ نبیوں کا وہ مقدس سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے چلا تھا وہ سلسلہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد کافی عرصے تک بند رہا، پھر اچانک رحمت خداوندی جوش میں آئی اور بگڑے ہوئے انسانوں پر رحم کھا کر ان کی رشد و ہدایت کے لیے عرب کی تپتی ہوئی سنگلاخ وادی اور چٹیل میدان میں، (۱)۱۲/ ربیع الاول بروز پیر مطابق ۲۲ اپریل ۵۷۱ء مطابق یکم جیٹھ سمت ۶۲۸ بکرمی صبح صادق کے بعد آفتاب نکلنے سے پہلے چار بچ کر پینتالیس منٹ ( ۴:۴۵) پر اس نبی امی کا ظہور ہوا کہ جس کا نام نامی اسم گرامی محمد بن عبد الله بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ہے۔
islamic taqreer in urdu pdf free download
دوستو!
وہ ایسے نبی تھے کہ جو سارے جہاں کا درد اپنے دل میں سمیٹے ہوئے تھا خنجر چلے کسی پے تڑپتے ہیں ہم امیر کا صیح اور حقیقی مصداق تھا ، اس ذات مقدس نے تمام کے تمام ظلم وستم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور تڑپتی ہوئی پوری انسانیت کی مسیحائی کی ، ضروری تھا کہ اس با برکت ہستی کو سینے سے لگایا جاتا اسے پلکوں پر بٹھایا جاتا مگر وہ ذات جو لوگوں کی ہدایت کے لیے تڑپتی رہی ہو، لوگ اسے پتھر مارتے رہے جو لوگوں کی بھلائی کے لیے اپنے وجود کو (1) بعض حضرات 9 / ربیع الاول کو بھی کہتے ہیں۔مشقت میں ڈال رہی ہو لوگ اس کے ساتھ اور اس کے چاہنے والوں کے ساتھ ظلم وجور کے وہ پہاڑ توڑتے رہے کہ جن کا ذکر کرنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کلیجہ باہر کو آنے لگتا ہے، اور مؤرخ کا قلم رک جاتا ہے، چناں چہ حضرت ابو بکر صدیق کو وطن کے ہوتے ہوئے بھی وطن سے بے وطن کر دیا گیا ، حضرت عمار بن یا سر کو شہید کر دیا گیا، حضرت خباب کو انگاروں پر لٹایا گیا، حضرت بلال کے سینہ پر پتھر رکھے گئے، حضرت سمیہ کو چیر دیا گیا، حضرت زبیر کی آنکھیں نکال دی گئی ، حضرت حمزہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے، مسلمانوں کی خستہ حالت دیکھ کر کفار مکہ قہقہہ لگا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اے مسلمانو! کیوں تم اپنے آبا واجداد کا دین چھوڑ کر ہلاک و بر باد ہور ہے ہو تم اب بھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ چھوڑ دو ہم تم پر سے یہ ساری پابندیاں ہٹالیں گے، مگر مسلمانوں نے جواب دیا کہ اے کفار سن لو، ہم حق پا چکے ہیں ، انوار محمدی سے ہم فیضیاب ہو چکے ہیں، لہذا ہم طوفان سے ٹکرا سکتے ہیں، خون کا دریا بہا سکتے ہیں ، آگ کے بستر پر سو سکتے ہیں، درختوں کے پتے اور چھالوں کو کھا کھا کر دن گزار سکتے ہیں، بھوک و پیاس سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ سکتے ہیں مگر مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار نہیں کر سکتے۔
islamic taqreer in urdu pdf free download
دنیا والو!
ذرا سو چوکیسی سنگین گھڑی تھی ، کتا بھیا تک منظر تھا، مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے منہ نہ موڑا ، آج ہم بھی تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا دعوی کرتے ہیں، اس لئے کان کھول کھول کر سن لیجئے ، اگر ہم نماز پڑھتے ہیں اگر ہم روزہ رکھتے ہیں اگر ہم حج ادا کرتے ہیں، اگر ہم زکوۃ دیتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنتوں کو مکمل طور پر بجالاتے ہیں ، تب تو واقعی ہم اپنے دعوئی میں بچے اور پکے ہیں ورنہ ؟ ہمارا دعوئی باطل اور بیکار ہے۔ پہلے مسجدیں تھیں کچی تو چکے تھے مسلمان آج مسجدیں ہیں پکی تو کچے ہیں مسلماں میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے تیر اور تلوار لے کر میدان جہاد میں کود جائیں، میں آپ سے یہ بھی نہیں کہتا کہ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے بڑے بڑے ایٹم بم اور میزائل بنانا شروع کر دیں، میں آپ سے یہ بھی نہیں کہتا کہ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے نئی نئی تدبیریں شروع کر دیئے جائیں۔
مسلمانو ! بلکہ میں آپ سے یہ ضرور کہوں گا کہ اگر آپ کامیابی چاہتے ہیں، تو نبی کی ایک ایک سنتوں کو زندہ کرنے والے بن جائیں ، صحابہ کا طریقہ اپنانے والے بن جائیں ، اس لئے کہ نبی کی سنت میں جو طاقت ہے وہ طاقت کسی تیر اور تلوار میں نہیں ، نبی کی سنت میں جو طاقت ہے وہ طاقت کسی نیزے اور کمان میں نہیں۔
نبی کی سنت میں جو طاقت ہے وہ طاقت کسی کے ایٹم بم میں نہیں ۔نبی کی سنت میں جو طاقت ہے وہ طاقت کسی اگنی میزائل میں نہیں نبی کی سنت میں جو طاقت ہے وہ طاقت کسی حکومت کے پاس نہیں۔ نبی کی سنت میں جو طاقت ہے وہ طاقت کسی سپر پاور کے پاس نہیں ۔ نبی کی سنت میں جو طاقت ہے وہ طاقت تمہارے پر دھان منتری اور ان کے فورس کے پاس نہیں۔ نبی کی سنت میں جو طاقت ہے وہ طاقت کسی انگریز اور ظالم و جابر وقت کے فرعون کے پاس نہیں۔دوستو ! کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ جاں کی بازی لگا کر بھی ناکام ہوں ایک ادا چھوڑ کر کیسے بے دام ہوں صرف مسواک سے جنگ کو جیت لی میرے آقا کی سنت بڑی چیز ہے اس لیے اے میرے پیارے پیارے مسلمان بھائیو، نبی کی سنت اور صحابہ کا طریقہ اپنا لیجئے ، ساری دنیا خود بخود تمہارے قدموں تلے آجائے گی۔ میں اپنی تقریر کو اس شعر کے ساتھ ختم کر رہا ہوں ۔